دل کی بات لبوں پر لاکر دُکھ ہم اب تک سہتے ہیں۔
نیشنل کانفرنس، کانگریس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، اپنی پارٹی ،جے کے پی سی، اور بھارتیہ جنتا پارٹی اِن دنوں وادی کے مختلف مقامات میں جاکر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ حسبِ عادت سیاسی سورما ایک دوسری کی پکڑی اُچھال رہے ہیں، لچھے دار تقریریں کر رہے ہیں، آسمان سےتارے توڈ لانے کی باتیں کر رہے ہیں، ریاست کا تشخص دو لخت ہونے پر کفِ افسوس ملتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ سیاسی لیڈر بڑی چالاکی سے سیاسی اُتھل پتھل پر سیر حاصل بحث کرنے کا ہنر رکھتے ہیں اور اپنے آقاوں کو تعریفوں کا پُل باندھ کر تعمیر و ترقی کی جادوئ چھڑی کے القاب سے اُنہیں قوم کا مسیحا قرار دیتے ہیں۔ سیاسی لیڈران دفعہ ٣۵اے کی واپسی کی بات کرتے ہیں، دفعہ٣٧٠ کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں اور کچھ پارٹیاں ریاست کا درجہ بحال کرنے کی وکالت کرتے ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی اس بات پر بضد ہیں کہ جموں و کشمیر کی مجموعی تعمیر ترقی میں اِن خصوصی دفعات کی وجہ سے تعمیر و ترقی کی رفتار دھیمی پڑگی تھی۔ گُزشتہ عشروں سے جموں و کشمیر کےلوگوں کواٹانومی، سیلف رول اور ترقی کے نام پر بہلایا گیا۔ عوام نے کئ بار اپنی رائے دہندگی کا استعمال کیا لیکن تعمیر و ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا، سیلف رول صرف ایک نعرہ رہا اور اٹانومی یعنی خودمختیاریت زبانی جمع خرچ ثابت ہوا۔ ماضی کی تلخ یادوں پر طائرانہ نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سیاسی لیڈر قوم کی حثیت اور ہئیت بگاڈنے میں کس قدر زمہ دار ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ غیر یقینی صورتِ حال میں انکا کتنا رول ہے اور یہ جھوٹے وعدوں سے عوام کو دھوکہ دینے کا ایک خاصہ رکھتے ہیں۔
اِن سے کوئ پوچھے ؟
دودھ اور مٹھائ کے الفاظ کس نے استعمال کئے، مژھل انکاونٹر کن لوگوں کے دورِ اقتدار میں انجام دیا گیا۔ غرض شامِ غم کی طویل داستاں رقم کرنے میں یہاں کی سیاسی پارٹیوں نے کوئ کثر باقی نہیں چھوڈی۔ اپنے مفاد کے لئے نیشنل نے لداخ میں بے جی پی کے ساتھ ہاتھ کیوں ملایا، اِن سے یہ بھی پوچھے کہ سبز رنگ کا ہاتھ زعفرانی کنول میں گُھل مل کیوں ہوا۔ ان سے یہ بھی استفسار کیجئے کہ ریاست میں ہزاروں لوگ قوتِ بصارت سے محروم کیوں ہوئے۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ جموں و کشمیر کی موجودہ ناگفتہ حالات کو پیدا کرنے میں یہاں کی سیاسی پارٹیوں نے برابر اپنا رول ادا کیا۔ آج مگر مچھ کے آنسوں بہا کرقوم کی ہمدردی میں تقریریں کرنا انہیں زیب نہیں دیتا ہے۔
اِنکی ہی غلط پالیسیوں نے ایک تو کشمیر کو بُرباد کرکے رکھ دیا وہیں بھارتہ جنتا پارٹی نے بھی اپنے پنجے مضبوطی سے گاڈنے کی کوشش کی۔ آج اُس کا ثمرہ دیکھا جارہا ہے، تیغ و تفنگ کے سائے ہر سانس پر پہرہ لگا ہوا ہے، قلم خاموش ہے، زبانوں پر مہریں لگی ہوی ہیں، قتل و غارت کا سلسلہ ماضی کی طرح روز افزوں بڑھتا جارہا ہے اور عام عام لوگ اس قیامتِ صغرا میں سسک سسک کر مر رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں اور نیم بسمل ہور ہے ہیں لیکن اس بیچ اُن کے زخموں پر پرہم ہونے کے بجائے انہیں سزایں دی جارہی ہے۔ انہیں پابندِ سلا سل رکھا جارہا ہے، بدنامِ زمانہ سیفٹی ایکٹ لگایا جارہا ہے۔ موجودہ حالات کا سہارا لے کر اب یہ پارٹیاں یمین و یسار میں عوامی اجتماعات منعقد کر رہی رہی ہیں، جذباتی تقریروں سے سادہ لوح عوام کو سبز باغ دکھارہے ہیں۔ حقیقیت یہ ہے اقتدار کے بھوکے اِن لوگوں کو کُرسی چھن گئ ہے، مراعات کم ہوگئے ہیں، سہولیات برابر ہیں مگر طاقت میں کمی ضرور واقع ہوچکی ہے۔ مسندِ اقتدار پر ایک بار پھر براجمان ہونے کے لئے سیاست کا کھیل شروع کرچکی ہے ۔الیکشن کی تیاری کے لئے یہ پوری ایگزرسایز کی جارہی ہے، دل بدلی کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے، ،نئے چہرے سامنے آرہے ہیں اور نئ پارٹیاں معرضِ وجود میں آرہی ہیں۔ مردہ ضمیری دیکھیے، ہزاروں لوگ جیلیوں میں بند پڑے ہیں،کھلی قبریں نعشوں کے انتظار میں دھنس رہی ہیں، پکڑ دھکڑ کا دامن وسیع ہوتا جارہا ہے لیکن اس کے خلاف بات کرنے کی ہمت نہیں، فرصت نہیں۔سیاسی سرگرمیوں کو تیز کرنے میں انکا اپنا ذاتی فائدہ ہے، ذاتی اغراض ہیں اور ذاتی ترقی وابستہ ہیں۔