*(توفیق احمد منزگامی)*
تشبیہ و تمثیل ہر زبان میں تعبیر و تفہیم اور اظہار و بیان کا ایک مفید و موثر اور خوبصورت ذریعہ رہا ہے۔ مذھبی صحائف میں بھی اس طریقہ اظہار کا کثرت سے استعمال ہوا ہے، کوئی بھی آسمانی کتاب اس تعبیر سے خالی نہیں ہے، احادیث میں بھی کثرت سے اس ذریعئہ تفہیم کو اختیار کیا گیا ہے۔ کسی چیز کی تشریح و تفہیم کے لیے امثال(مثالیں) بہت موثر اور مفید ذریعہ ہے ,کیونکہ مثال کی مدد سے لوگوں کو ہر بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ تاریخ انسانی کی مشہور شخصیتوں نے اپنے افکار کی تفہیم کے لیے مثالوں کا سہارا لیا ہے۔۔۔۔
قرآن مجید کی طرح حدیث میں بھی امثال کثرت سے ملتی ہیں، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کبھی کسی چیز کی اہمیت یا شناعت دلوں میں بٹھانے کے لیے مثالوں سے اپنی بات مخاطب کے سامنے رکھتے تھے، ایک موقع پر عصبیت اور تعصب و تنگ نظری کی شناعت و برائی آپ کو بتانی تھی اور اس کے نقصانات سے آپ کو باخبر کرنا تھا تو آپ نے اس کو ایک مثال سے سمجھایا آپ نے فرمایا:
من نصر قومہ علی غیر الحق فھو کالبعیر الذی ردی فھو ینزع بذمبہ۔۔۔۔۔ (ابو داود )
جوشخص ناحق اپنی قوم کی حمایت کرے وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اونٹ کنویں میں گر پڑے، پھر اسے اس کی دم پکڑ کر کھینچا جائے۔
اپنی قوم، جماعت اور گروہ کا ناحق ساتھ دینا محض اس بنیاد پر کہ وہ ان کی قوم، جماعت اور گروہ ہے، جاہلی عصبیت ہے۔ اسلام کا اس سے دور ➖ کا بھی تعلق نہیں ہو سکتا، جو کوئی حق چھوڑ کر ظلم، نفرت اور تعصب کی روش اختیار کرتا ہے وہ درحقیقت خود کو تباہ و برباد کرتا ہے، اس کی اس روش سے اس کا دین و اخلاق تباہ و برباد ہوجاتا ہے، اس کی حالت اس اونٹ 🐫 کی سی ہوتی ہے جو کسی کنویں میں گر پڑا ہو، کنویں میں گرے ہوئے اونٹ کو اس کی دم پکڑ کر نہیں نکالا جاسکتا، ظالم کی حمایت اور اس کی مدد اسے تباہی سے نہیں بچا سکتی جس کو اس نے خود اپنے لیے پسند کرلیا ہے۔ اس کی حمایت کرنے، اسے بچانے سے رہا، وہ تو جاہلی عصبیت کی وجہ سے تباہ و ہلاک ہوتا ہے، اس کی دینی و اخلاقی حیثیت باقی نہیں رہتی۔
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کوئی شخص اپنی قوم سے محبت کرے کیا یہ بھی عصبیت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نہیں، بلکہ عصبیت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی قوم کی مدد اس صورت میں بھی کرے جب کہ وہ ظلم کر رہی ہو۔ احمد/ابن ماجہ
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی قوم یا گروہ سے محبت و تعلق یا اس کے حقوق و مفادات کے حصول و تحفظ کی ایسی کوشش جس سے دوسروں کے جائز حقوق مجروح و متاثر نہ ہوں، عصبیت نہیں ہے۔ البتہ اپنی قوم و جماعت کی ایسی حمایت و پاسداری جس میں دوسروں سے ناحق بغض و نفرت کے جذبات نمایاں ہوں، یا اپنی قوم کی کسی ایسی جدوجہد میں معاونت کرنا جو صریحاً ظلم و تعدی پر مبنی ہو، اسے جاہلی عصبیت کے سوا کچھ اور نہیں کہا جاسکتا، اسلام اس طرح کی عصبیتوں کو مٹانے کے لیے ہی آیا ہے۔ اس لیے کہ جاہلانہ عصبیت کے ساتھ کسی اعلی نظریہ و فکر اور کسی اعلی تہذیب و تمدن کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ مذہب سلام آفاقی و عالمگیر نظریہ و فکر کا حامل ہے، وہ کبھی بھی کسی تنگ نظری، تنگ خیالی قومیت،علاقیت،وطنیت اور فرقہ پرستی سے مصالحت کا روا دار نہیں ہوسکتا۔( مستفاد کلام نبوت، ص، ٥٦٨)
لیکن افسوس کہ جس مذہب کی تعلیمات اس قدر وسیع و ہمہ گیر، شاف و شفاف اور جس کے اندر تعصب،تنگ نظری اور تنگ خیالی کی ذرا بھی گنجائش نہیں، اور جو مذھب جاہلی عصبیت (قومیت و و طنیت و علاقیت)کو مٹانے کے لیے آیا، جس امت کو یہ پیغام دیا گیا کہ عجم و عرب کی بنیاد پر گورے اور کالے کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فضیلت و فوقیت اور برتری حاصل نہیں، جس امت کے آخری نبی نے عصبیت کو جاہلانہ عمل قرار دیا ، اس کو اپنے ہاوں کے خاک کے نیچے دبا دیا اور یہ فرمایا کہ جو عصبیت اور قومیت وطنیت کی طرف بلاوے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، اس امت کی اکثریت میں یہ جاہلی برائ کثرت سے پنپ رہی ہے، عوام کو تو جانے دیجئے مہذب و مثقف اور تعلیم یافتہ لوگوں میں یہ برائ کچھ زیادہ ہی پائی جارہی ہے۔ جو بہت ہی افسوس کی بات ہے۔
عصبیت کی نحوست سے معاشرہ اور سوسائٹی متعفن ہو رہی ہے لیکن اس سماجی اور اخلاقی بیماری کے علاج کی فکر بہت کم لوگوں کو ہے اور حد یہ ہے کہ اس مرض میں مبتلا لوگ اپنے کو بیمار نہیں بلکہ صحت مند سمجھتے ہیں۔
عصبیت کی نحوست بتاتے ہوئے ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر شاہجہاں ندوی صاحب نے کیا خوب لکھا ہے اور بہترین پیغام دیا ہے، وہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
اسلام کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ حق وانصاف اور مساوات و برابری کا علمبردار ہے، لہذٰا اس کے چوکھٹے میں عصبیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے؛ کیونکہ عصبیت کا مطلب یہ ہے کہ قوم، ذات برادری، قبیلہ، خاندان، علاقہ، شہر، صوبہ، ملک یا زبان کی بنیاد پر کسی کی حمایت کی جائے، خواہ وہ باطل پر ہو اور ظلم و جور اور تعدی سے متصف ہو، یا کسی شخص کی خوبی کا محض اس بنیاد پر انکار کردیا جائے، یا اس کے ساتھ ظلم کو صرف اس لیے روا رکھا جائے کہ وہ کسی مخصوص برادری یا مخصوص علاقہ سے تعلق رکھتا ہے-
ایسے لوگ جو عصبیت پر مبنی رویہ اختیار کرتے ہیں اور جاہلیت کا نعرہ لگاتے ہیں، اسلام انہیں دل کا گندہ اور معنوی نجاست میں مبتلا قرار دیتا ہے-
مذہب اسلام عصبیت کو کس قدر ناپسند کرتا ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ- صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین وسلم- نے اسے نجاست کی طرح بدبو دار شے قرار دے کر اس سے دور رہنے کی تلقین کی ہے-( صحیح البخاری حدیث نمبر 4905، صحیح مسلم حدیث نمبر 2584)-
بد قسمت ہیں وہ لوگ، اور کتاب و سنت کی روشنی اور خوشبو سے دور ہیں وہ افراد جو عصبیت کے چوبچے میں غوطہ لگاتے ہیں، اور قومیت، علاقائیت، لسانیت اور ذات و برادری کا گھناؤنا کھیل کھیلتے ہیں، اور اس طرح دنیا کے سامنے اسلام کے خوبصورت چہرہ کو داغدار کرتے ہیں-
آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم اسلام کے پیغام حق وانصاف اور مساوات کو عملی جامہ پہنائیں تاکہ دنیا پھر اسلام کے دامن میں پناہ لینے کو اپنی خوش قسمتی سمجھے-