تشدد کھبی بھی ”کشمیریت “ کا حصہ نہیں رہا ہے لیکن بد قسمتی سے یہ معمول بن گیاہے
نوجوان نسل عظیم وراثت سے سیکھیں ، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ کشمیر ہمیشہ ملک کیلئے امید کی ایک کرن رہا ہے
سرینگر
تشدد کھبی بھی ”کشمیریت “ کا حصہ نہیں رہا ہے لیکن بد قسمتی سے یہ معمول بن گیاکی بات کرتے ہوئے صدر ہند رام ناتھ کووند نے کہا کہ ”میں کشمیر کی نئی نسل سے تاکید کرتا ہوں کہ وہ اپنی عظیم وراثت سے سیکھیں، انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ کشمیر ہمیشہ باقی ملک کیلئے امید کی ایک کرن رہا ہے “۔ سی این آئی کے مطابق جموں کشمیر کے چار روزہ دورے کے دوان منگل کو ایس کے آئی سی سی سرینگر میں کشمیر یونیورسٹی کے 19 ویں کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے صدر ہند رام ناتھ کودند نے کہا کہ کشمیر میں ہمیشہ سے مختلف مذہبوں کے لوگ مل جل کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس غیر معمولی مذہبی رواداری کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور تشدد جو کبھی کشمیریت کا حصہ نہیں رہا ہے، معمول بن گیا۔صدر کووند نے کہا کہ غیروں نے کشمیر پر مسلط ہونے کی کوشش کی جس کو ہم ایک عارضی وائرس ہی قرار دے سکتے ہیں جو جسم پر حملہ آور ہوتا ہے۔اس موقعہ پر انہوں نے طلبہ جنہوں ڈگریوں سے نواز ا گیا کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے کہا گیا کہ آج قریب تین لاکھ طلبہ ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں اور مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ میں اتنی تعداد میں اسکالروں او ر ڈگری ہولڈروں کو دیکھ رہا ہوں ۔ انہوں نے کشمیر یونیورسٹی کی تعریفیں کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی نے ایک تاریخ رقم کر دی ہے جس کیلئے ان کی جنتی تعزیف کی جائے وہ کم ہے ۔ صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے کہا کہ میں نے کشمیر کو جنت بروئے زمین دیکھنے کا خواب دیکھا ہے جس کے شرمندہ تعبیر ہونے کا انحصار خاص طور پر نوجوانوں اور خواتین پر ہے۔صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے کشمیر کو ملک کے لئے امید کی ایک کرن قرار دیتے ہوئے یہاں کی نئی نسل کو اپنی عظیم وراثت سے سبق حاصل کرنے کی تاکید کی ہے۔ انہوںنے کہا کہ کشمیر کے نوجوان مختلف شعبوں میں بلندیوں کو چھو کر اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘کشمیر کے نوجوان مختلف شعبوں میں نئی نئی بلندی طے کر رہے ہیں، سول سروس سے لے اسپورٹس تک اپنا مقام بنا رہے ہیں۔ کشمیر کو شاعروں نے جنت بروئے زمین کہا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کشمیر کی خوبصورتی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا’۔انہوں نے کہا کہ کشمیر ہمیشہ سے تعلیم و تعلم کا مرکز رہا ہے اور ملک کے فلسفے کی کشمیر کا حوالہ دیے بغیر تاریخ تحریر کرنا نا ممکن ہے۔